فائزہ

انتساب


عطیہ کے نام




پیش لفظ

’’فائزا ‘‘ میرا پہلا شعری مجموعہ ہے۔
فائزا(Physa) ایک Fossilکا نام ہے۔ Fossils یا سنگوارے زندگی کے ان ابتدائی Forms کی باقیات ہیں جو کروڑوں برس پہلے زمین پر بستے تھے اور پتھروں میں دب کر ان پر اپنے حجرائے ہوئے نقوش چھوڑ گئے ہیں ۔ وہ مختلف عناصر جو زیر زمین، سطحِ زمین اور خلائے بسیط میں وقت کے ایک وسیع Span پر کارفرما رہے ہیں ان Forms کے بتدریج ارتقاء کا سبب بنے ہیں جس کی منتہیٰ موجودہ آدمی ہے۔
معنوی سطح پر ’فائزا‘ زماں و مکاں کے طویل و عریض صحرا میں اپنی roots تلاش کرنے کی خواہش کا علامتی اظہار ہے۔ معنی کے ہشت پہلو پتھر کا دوسرا رخ دیکھئے تو اس بھاگتی دوڑتی، بے مہر، مشینی زندگی میں کبھی کبھی یہ احساس جاگتا ہے کہ کیسی کیسی صورتیں ، خوشبوئیں ، لفظ، منظر، سائے، عکس جو کل تک متحرک تھے، وقت کے پتھر تلے دب گئے ہیں اور پھر الفاظ سنگوارے ہی تو ہیں جن میں نسل ِ انسانی کی نہ جانے کیسی کیسی خواہشیں ، امنگیں اور حسرتیں مدفون ہیں ، تیسرا رخ دیکھئے تو زندگی ایک رواں دواں سفر ہے۔ اگر آج سے کروڑوں برسوں پہلے کی زندگی کے عکس ہمیں آج بھی مل سکتے ہیں اور ان کا حیاتیاتی ارتقاء ہمارے موجودہ خدوخال اور جسم کی ساخت کی ترکیب کا تعین کر سکتا ہے تو ہماری ذہنی، معاشرتی اور تہذیبی نہج بھی یقیناً آئندہ نسلوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے گی، یوں فائزا کی علامت زندگی کو زیادہ بامعنی بنانے کی آرزو بن جاتی ہے، چوتھا رخ یہ ہے لیکن شاید یہ گفتگو کافی طویل ہو گئی ہے۔ معنی کی کئی تہیں ، کئی سطحیں ہوتی ہیں ، کئی پرپیج راستوں سے گزرنا پڑتا ہے، اس سیاحت میں زیادہ دور تک ، زیادہ دیر تک میرا ساتھ آپ کو کھلے گا، کچھ سفر آپ تنہا طئے کرنا چاہیں گے، میرے لیے یہی مناسب ہے کہ اس موڑ پر آپ سے رخصت لوں ۔

مصحف اقبال توصیفی
٭٭٭
میری خواہش ہے کہ ان سطروں میں اپنی ماں اور والد محترم جناب محمد عبد المعطی صاحب کا ذکر کروں، میں نے زندگی میں جو کچھ پایا ہے، وہ ان ہی کی تربیت، شفقتوں اور دعاؤں کا فیض ہے۔ میں زندگی میں جو بھی پاؤں گا وہ بھی ان ہی کی نیکیوں کا ثمر ہو گا۔
شاذؔ تمکنت ، اردو شاعری میں ایک اہم نام ہے۔ مجھے پچھے انیس بیس برسوں سے ان کی رفاقت دوستی اور محبتیں حاصل رہی ہیں جو میرا قیمتی سرمایہ ہیں ۔ اس مجموعے کی صورت گری، میرے چند اور محترم دوستوں ، ڈاکٹر مغنی تبسم ، جناب عوض سعید، جناب اوم پرکاش نرملؔ اور جناب خالد قادری کے مشوروں کے بغیر ممکن نہ تھی، میں ان احباب کا تہہ دل سے سپاس گزار ہوں ۔
م۔ ا۔ ت
٭٭٭




۱۹۶۵
سے پہلے


تنہائی


میری تنہائی ایک تسلسل ہے

میری تنہائی ہے کہ سَاحل ہے
جس کو امواج بحر و طوفاں نے
لاکھ چاہا کہ نذرِ آب کریں
لیکن ہر بار یوں ہُوا جب بھی
کوئی ساحل جو ریگ بحر ہوا
آگیا دوسرا کوئی سَاحل
اور اس طرح سینکڑوں ساحل
ایک کے بعد ایک آتے ہیں
اور طوفان ہار جاتے ہیں ۔

میری تنہائی موم ہے شاید
جو پگھلتی ہے موم ہونے کو!
٭٭٭


انجام


چاند کی روشنی
سبک پا ہوا
نیم شب ، خامُشی
پیڑ سے کتنے پتے گرے ٹوٹ کر
خاک میں مل گئے
چاند کی چاہ میں
کیل سے آسماں کی لٹکتی ہوئی
یہ قندیل اس چاند کے حُسن کی
رات کے ساتھ بجھ جائے گی
صُبح دم______
خاک میں چکھ دبے، کچھ کھلے
زرد پتوں سے لپٹے ہوئے
میری نظموں کے دوچار کاغذ
ہوا تیز ہو گی تو اُڑ جائیں گے !!
٭٭٭


ان کہی

 میں بیٹھا ہوں پیڑ کے نیچے، چند کتابیں اِدھر اُدھر
پڑی ہوئی ہیں ایک اُن میں سے کھلی ہوئی ہے زانو پر
میں جس لفظ پہ نظریں ڈالوں ، آگے سرکا جائے ہے
پیچھے پیڑ کا پتہ پتہ کھلی ہوا سے رہ رہ کر
کہتا ہے وہ بات نہیں جو میری کھلی کتابوں میں
اک پنچھی اظہار کا پنجرا جو پہنچانے، ۔۔ انجانے میں
رہ رہ کر اک شاخ کا آنچل میرے شانے چھوتا ہے !

٭٭٭




جنم جنم کی بات

(شاذؔ تمکنت کی شادی پر )


اُنگلیاں نَے پر اُٹھیں ، نَے کو لبوں نے چوما
کامشی راگ میں تبدیل ہوئی
ساز سے راگ ہم آہنگ ہوا
نغمہ بیدار ہوا ۱ ؎
اپنے مامَن سے اُٹھے کیف ازل ، کیفِ ابد
ٹھنڈ کیں چاند ستاروں کی
سبک گام شمیم
سب اٹھے ساتھ چلے
ایک مرکز پر سمٹنے کے لیے
ایک بندھن کے جنم دینے کو
اب دُعا ہے کہ اُسی ساز اُسی راگ کے مانند اُٹھیں
اس طرح ساتھ قدم، پھُول کی مانند کھِلیں
اُٹھتے قدموں کے نشاں
طاقِ ماضی میں بسیں پھول، مہک کے ساتھ رہے !
(۱؎ میراجی مرحوم)
٭٭٭



ایک نظم


جانے کس بات کا مفہوم اُلجھ کر اکثر
تیرے چلتے ہوئے ہونٹوں پہ سلگ اٹھتا تھا

تیرے ہونٹوں سے مرے کانوں تک
___ بول ملبوس ہوئے
___ کان پردہ ہوئے ، دیوار ہوئے
بات کے جسم کو عریاں نہیں دیکھا میں نے
جانے کا بات تھی، کیا تو نے کہی، میں نے سُنی
کون کہے_____ ؟ !!
٭٭٭



ہمزاد


یہ کون ہے، جس کو تک رہا ہوں
بوجھل ہیں نمی سے کس کی آنکھیں
بے رنگ، اتھاہ، یہ سمندر
بے نُور بُجھی بُجھی سی آنکھیں

موجوں سے کبھی نہیں ڈریں گے
ہونٹوں پہ چراغ حسرتوں کے
طوفان سے بھی نہیں بجھیں گے

آنکھوں کو بھی ضد سی ہو گئی ہے
اک بات تھی توڑ کر کوئی دل
پلکوں پہ کسی کے سو گئی ہے

جُز میرے یہاں کوئی نہ ہو گا
یاں کون ہے غم گُسار میرا
تنہائی کے ٹوٹے آئینے میں
میں دیکھ رہا ہوں اپنا چہرہ!
٭٭٭



غزل

چاند نے اپنا دیپ جلایا، شام بُجھی ویرانے میں
اُس کی بستی دُور ہے شاید، دیر ہے اُس کے آنے میں

کیا پتّھر کی بھاری سِل ہے، ایک اک لمحہ ماضی کا
دیکھو دب کر رہ جاؤ گے اتنا بوجھ اُٹھانے میں

اُس کو نہیں دیکھا ہے جس نے مجھ کو بَھلا کیا سمجھے گا
اُن آنکھوں سے گزرنا ہو گا میرے دل تک آنے میں

اپنی ذات سے کچھ نسبت تھی، وہ بھی اُس کی خاطر سے
میرا ذکر نہیں ملتا ہے اب میرے افسانے میں

ایک ہی دُکھ تھا میرا اپنا، وہ بھی اُس کو سونپ دیا
آخر دل کی بات زباں تک آ ہی گئی انجانے میں

میری راتوں میں مہکے ہیں جو سپنوں کی ڈالی سے
رنگ ہے اُن پھولوں کا شامل آج ترے شرمانے میں

اب تو تم بھی جان گئی ہو، تم کو کیا سُکھ ملتا تھا
میرے گھر کے کام میں میری ماں کا ہات بٹانے میں

جس سے بات بھی کرنی مشکل ، وہ بھی اُس محفل میں ہو گی
مصحفؔ کیسا لطف رہے گا اُس کو شعر سُنانے میں
٭٭٭


دُور کی آواز


کسی آنے والی مسرت کے احساس میں کھوئی کھوئی سی
تم آج کتنی حسیں لگ رہی ہو

خدا وہ بھی دن لائے گا جب یہ احساس ہر دل کی
دھڑکن بنے
وہ دھڑکن جو پائل کی چَھم چَھم میں ڈھل کر
تمہارے
پاؤں کے گرد ناچا کرے گی

کبھی نور و نغمہ کی ان وادیوں میں
کوئی دکھ بھری تان سننے میں آئے
تو پیچھے پہاڑوں کی اُن چوٹیوں کی طرف دیکھ لینا
وہاں کون ہے؟
کیوں کسی بانسری کی بھٹکتی صدا بن گیا ہے !!
٭٭٭


غزل

جس پر تیرا من ہے
وہ اوروں کا دَھن ہے

روٹھی ہو ساجن سے
سکھیوں سے اَن بَن ہے

پل دو پل کی سنگت
پھر لمبَا جیون ہے

راتوں کو مت جاگو
یہ کیسا پاگل پن ہے

٭٭٭


برسات


برستی ہوں چَھما چَھم بوندیاں سی وقت جب گائے
تصور کا کوئی نغمہ کسی کے دھیان کی لَے پر
مہک جائے مری آنکھوں میں وہ اک پھول کا پیکر
جسے خوابوں کی ڈالی سے کبھی توڑا نہیں جائے

بھٹکتا ہو ہوا کا کوئی جھونکا جیسے کُہرے میں
تصور ذہن میں نے آئے کوئی بات ماضی کی
نہ جانے ہم کہاں جاتے تھے وہ پھوہار سی ہلکی
اکیلا بس یہی سوچوں ، کسی کیفے کے گوشے میں

کبھی سوچوں اسی برسات سے چشمے بھی پھوٹے ہیں
ترا غم بھی مری آنکھوں کو کوئی راز دے جیسے
کوئی نغمہ سکوتِ ساز کو آواز دے جیسے
کبھی سوچوں ، مرے زخموں کے بندھن ایسے ٹوٹے ہیں

فضا سیراب ہے غم سے کہ ہے برسات کا موسم
مری آہیں مرے اشکوں کو جیسے جذب کرتی ہیں
نمی شاید ہوائیں بھی یہیں سے کسب کرتی ہیں
کہیں چھائے ہوئے بادل، کہیں کہرا، کہیں شبنم

ترا غم جس طرح ہو، ہمدم دیرینہ آنکھوں کا
ہر اک برسات کا منظر ہوا، آئینہ آنکھوں کا
٭٭٭



وقت


ساون کی وہ رت گذر گئی ہے
اک عمر ہوئی ہے سات چھوٹے
ہاتھوں سے وہ نرم ہاتھ چھوٹے
وہ لمحہ گذر گیا ہے … لیکن
وہ لمحہ ابھی مرا نہیں ہے

تم کہتے تھے زندگی سفر ہے
اک موڑ پہ آج آ گئے ہم
بہتر ہے یہیں پہ سات چھوٹے
اس لمحے کا ہاتھ تم نے تھاما
اک بھیڑ میں کھو گئے کہیں تم
دیکھو میں تمہارا منتظر ہوں
اس موڑ پہ آج بھی کھڑا ہوں
وہ لمحہ گذر گیا ہے لیکن
گذرے گا وہ بار بار ادھر سے
تم آؤ گے اس کا ہات تھامے
میں دیکھ ہی پاؤں گا تمہیں وہ
لے جائے گا اور دور مجھ سے
٭٭٭



اندھے خواب



’’تم سے کتنی بار کہا ہے
اک اچھی سی ساڑی لادو
ببو کی موٹر کا پہیہ ٹوٹ گیا ہے … وہ بنوا دو‘‘
’’تم کہتے تھے اس پہلی پر سونے کے کنگن لاؤں گا
یہ گجرا کتنا سندر ہے، میرے ہاتھ آٹے میں سنے ہیں لو تم ہی پہنا دو‘‘

کیسے خواب دکھاتی ہو یہ … تم جو غیر ہو، میری کب ہو
تم جو اتنا شرماتی ہو
کچھ کہتا ہوں تو نیچی نظریں اور بھی جھکتی جاتی ہیں
دو آنکھیں پردہ کرتی ہیں ۔ پلکیں گھونگھٹ بن جاتی ہیں !!

٭٭٭


سمجھوتہ


یوں نہ پاگل بنو، اداس نہ ہو
اپنے اشکوں کو تم بھی پی لینا
میں بھی جیتا ہوں ، تم بھی جی لینا
تمہیں کھونا بھی تم کو پانا ہے
یوں بھی جینے کو چاہئے کوئی غم
تمہیں کھونا تو اک بہانہ ہے
ہجر کی رات ڈھل گئی اب تو
غم نئی صبح لے کے آیا ہے
غم تمہاری طرح حسین ہے جو
غم جو میری طرح تمہارا ہے
اس طرح میرے ساتھ رہتا ہے
جیسے بہتی ہو اک اکیلی ندی
اس کا ساحل بھی ساتھ بہتا ہے
چاند اکیلا نہیں ہے محو ِ سفر
رات کی عمر بھی تو گھٹتی ہے
زندگی اس طرح بھی کٹتی ہے!
٭٭٭


پھاگ



تم میرے کرتے میں
ٹوٹے بٹنوں کو ٹانک رہی ہو
تم نے اپنی انگلی میں
دیکھو … سوئی چبھو لی
اک قطرہ … وہ خوں کا
جو پوروں میں پھیل گیا ہے
اک قطرہ … وہ خوں کا
جو میرے دل میں باقی ہے
میرے پاگل خوابوں سے
ہولی کھیل رہا ہے !

٭٭٭


سفر



خاموش ہے رات، … تیرے بھی
سنسان اداس راستوں کی
بانہوں میں سمٹ کے سو گئی ہے
اک یاد بدل بدل کے پہلو
پھر مجھ سے لپیٹ کے سو گئی ہے
ٹوٹا ہے فلک سے کوئی تارہ
رہ جائے گا پھر خلاء میں کھو کر
میں نے اسی گھومتی زمیں سے
اے جاں ! تری چاہ کے سفر میں
ڈھونڈا ہے تجھے خلاؤں میں بھی
کچھ رات تو کٹ گئی ہے، یوں بھی
یہ فاصلہ کچھ تو کم ہے
پلکوں سے ڈھلک کے ایک آنسو
رخسار پہ میرے تھم گیا ہے!
٭٭٭



لوگ کہتے ہیں


لوگ کہتے ہیں کہ دھیرے دھیرے
وقت ہر زخم کو بھر دیتا ہے
تم بھی لوگوں کی کہی باتوں میں آ جاتی ہو
ایک لمحے کے لیے
مضمحل ہوکے یہی سوچتی ہو گی شاید
میرے بچپن کا وہ ساتھی، وہی پاگل لڑکا
وہ بھی اب بھول گیا ہو گا مجھے
لوگ کہتے ہیں کہ دھیرے دھیرے
وقت ہر زخم کو بھر دیتا ہے
بے سبب اپنی جفاؤں پہ پشیمان نہ ہو
لوگ کہتے ہیں … مگر
ایسا ہوتا تو نہیں !
٭٭٭


غزل

یاد پھر آئی تری، موسم سلونا ہو گیا
شغل سا آنکھوں کا بس دامن بھگونا ہو گیا

اب کسی سے کیا کہیں ہم کس لئے برباد ہیں
اب کسی کی کیوں سنیں جو کچھ تھا ہونا ہو گیا

گیت بابل کے سنانے تیری سکھیاں آ گئیں
میں تو بس بچپن کا اک ٹوٹا کھلونا ہو گیا

میری پلکوں پر مرے خوابوں کی کرچیں رہ گئیں
نیند گھائل ہو گئی آنکھوں میں ، سونا ہو گیا

پھر کسی کی یاد کیوں آتی ہے یارب خیر ہو
ہم تو آنسو پونچھ کر خوش تھے کہ رونا ہو گیا
٭٭٭


غزل

موم ہوں کس طرح پگھل جاؤں
کیسے اس قید سے نکل جاؤں

جیسے ہر سانس میں تجھے دھونڈوں
ایک پل آؤں ، ایک پل جاؤں

ننھے راجیؔ کو ٹافیاں دے کر
میں ترے ذکر سے بہل جاؤں

میرا بچپن کھلونے لایا ہے
میں تجھے ڈھونڈنے نکل جاؤں

بند دکان، آئینے ، گڑیا
میرا بچپن، وہ ضد، مچل جاؤں

اب نہ آؤں کسی کی باتوں میں
ہو اگر وقت تو سنبھل جاؤں

ذکر تیرا، ترا سراپا ہے
اپنے ہونٹوں سے میں نہ جل جاؤں
٭٭٭


ایک شعر

نکالو تم بھی کوئی راہ، ڈھونڈیں کچھ سبیلیں ہم
بہانہ کوئی مل جائے تو کچھ دن اور جی لیں ہم
٭٭٭


رائگاں




کوئی یہ دیوار گرائے
ایک ہی خواہش
کب تک دل کو بہلائے گی
ایک ہی سپنا
کب تک آنکھوں کے صحرا میں بھٹکے گا
وہ اک اڑتی خوشبو
جس کے پیچھے بھاگوں ، ہات نہ آئے گی
گم صم سا اک کونے میں جا بیٹھو گا
جب یاد کسی کی آئے گی
اس کا ہی دکھ سہنے کو ہے
کیا یہ اتنا لمبا جیون
اک آنسو میں بہنے کو ہے!
٭٭٭


غزل

وہ سوتے جاگتے آنکھوں میں بار بار آئے
اسے نہ میری محبت کا اعتبار آئے

وہ تپتی ریت، نگاہیں جھلس گئی تھیں جہاں
کسی کے نقش قدم دور تک پکار آئے

یہ سارے کھیل تھے یوں بھی تری خوشی کے لیے
جو بازی جیت ہی لی تھی وہ آج ہار آئے

ابھی اٹھی بھی نہ تھیں وہ جھکی جھکی پلکیں
بچھڑ گیا ہے کوئی کیسے اعتبار آئے

اسی کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں تیرہ راتوں میں
ہم اس زمیں سے جسے چاند پر اتار آئے
٭٭٭



متوسط طبقہ

بلو کہتا ہے ’’ممی! اسکول کو دیر ہو گئی
اب مرا کھانا پروسو، نو کبھی کے بج چکے
آج تو بس بھی گئی‘‘

لکڑیاں گیلی ہیں ، دھیمی آنچ میں
اس کے چہرے پر پسینے کی چمکتی بوندیاں
گیلا آتا، ضدی بلو، آنکھ میں آنسو، دھواں

ایک لٹ بالوں کی جھک کر
اس کے رخساروں سے کہہ جاتی ہے جب باتیں کئی
سر جھٹکتی ہے تو گر جاتی ہے کوئی اور لٹ
چوم لیتی ہے لویں کانوں کی کوئی اور بات

کون سلجھائے گا، وہ بالوں کی لٹ
میرے ہاتھوں میں پھنسائے اپنی ننھی انگلیاں بلو ہنسے
اور اس کے ہات آتے سے بھرے!
٭٭٭


قید



وہ نہیں جانتی
میرے بچپن کا ہر لمحہ کیوں قید ہے
کہاں قید ہے

وہ بچپن
سرخ بالوں ، سیہ ابروؤں والی لڑکی
مجھے یاد ہے
وہ اڑتی ہوئی تتلیوں کے تعاقب میں مجھ سے جدا ہو گئی تھی
جب وہ لوٹی مجھے یاد ہے
میرے آنگن میں جوہی کے پودے بڑے ہو گئے تھے
اس کی کتابوں میں
اڑتی ہوئی تتلیاں قید تھی
وہ نہیں جانتی
میرے بچپن کا ہر لمحہ کیوں قید ہے
کہاں قید ہے!!
٭٭٭



فائزا (Fossil)



کبھی پتھروں کے ذخیرے سے خاکستری رنگ کا
ایک پتھر اٹھایا ہے
اور اس میں تاریخ کے ابتدائی زمانے کا اک جانور
’فائزا‘ دیکھ کر
سوچتا رہ گیا ہوں
کہ یہ جانور آج تک ایک پتھر سے چمٹا ہوا ہے
اسی ایک پتھر میں یہ دفن ہے

کبھی ایسا لگتا ہے، جیسے
مرا جسم بھی ابتدائی زمانے کا پتھر ہے کوئی
وہ پتھر کہ جس میں مری روح سمٹی ہوئی ہے
مری روح میں ’فائزا‘ ہے!!!
٭٭٭


غزل

اب کسی کو دیکھ کر اک سمت مڑ جاتے ہیں ہم
جس سے ملنا چاہتے ہیں ، اس سے کتراتے ہیں ہم

یہ نمی آنکھوں کی، سینے کی جلن ، جاتی نہیں
تیری محفل میں بھی تنہائی سے گھبراتے ہیں ہم

لوگ تجھ کو بے وفا کہتے ہیں ان سے کیا گلہ
رنگ دنیا دیکھ کر خاموش ہو جاتے ہیں ہم

کیوں زمانے بھر کی خوشیوں سے ہے کوئی غم عزیز
آئینے کے پاس آؤ تم کو سمجھاتے ہیں ہم

مڑکے دیکھا تھا تو سارا شہر پتھر ہو گیا
لوٹ کر آئے تو ہر پتھر سے ٹکراتے ہیں ہم

٭٭٭



۱۹۶۵
تا ۱۹۷۰ء




ایک نظم



پربت، دریا، میدان ، ٹیلے … رات ڈھلے
جب لہروں کی بانہوں میں
اک چاند کا عکس سمٹ آئے
کچھ دور … کسی پربت پر
اک آگ جلے … دو سائے
اک پل کی دو آنکھوں میں
سرگوشی کجرا بن جائے
اک نغمہ جاگے پیڑوں میں

تم ایسے میں چپکے سے آ کر
اس منظر کی حیراں آنکھوں پر ہات نہ رکھنا
پھر شب کے پردے جل جائیں گے
اب آؤ تو شمعوں کی لو دھیمی ہی رکھنا!
٭٭٭



دفتر سے گھر تک


وہ مری راہ دیکھتی ہو گی
فائلیں ، میز، کرسیاں ، اخبار
کال بیل، بلب، روشنی، دیوار
ایک رومال، پھول، کیلنڈر
لکھ رہا ہوں سفید کاغذ پر
میری تحریر لڑکھڑاتی ہے
لکھ رہا ہوں اگرچہ سرد ہیں ہات
مہر، اب مغربی دریچے سے
جھانک کر الوداع کہتا ہے
وہ مری راہ دیکھتی ہو گی
روز کی طرح گھر کا اتنا کام
کرتے کرتے ہی تھک گئی ہو گی
سامنے ہو گی اک کتاب کھلی
سوئٹر میرا بن رہی ہو گی
ننھی نیلوؔ ہمارے آنگن میں
میرے بِلّوؔ سے کھیلتی ہو گی
شہر کا شور، روز کی فریاد
اس کی آواز ڈوبی جاتی ہے
ایک نادیدہ آس کے پل پر
بھاری قدموں سے لوگ چلتے ہیں
بار غم سے نڈھال جسموں کی
ٹہنیوں سے ہٹے ہوئے چہیر
ایک انبوہ کی طرح ہر سمت
ہات میں ہات ڈالے گھومتے ہیں
ہات، پاؤں ، کٹے ہوئے چہرے
زرد پتے برس رہے ہیں ، شام
بال کھولے سڑک پہ بیٹھی ہے
چھو رہا ہے لبوں کو اس کا نام
دل کی بیتابیوں کو سمجھانے
آج کیا بات ہے خدا جانے
سات بجتے ہیں ۔ بس نہیں آئی
اک شکایت کی طرح باندھ لیا
میری بانہوں کو اپنے جسم کے گرد
چھین کر مرے منہ سے سگریٹ کو
اس نے انگلی لبوں پر رکھ دی ہے
سوچتا ہوں کہ ان اندھیروں میں
اس کی آنکھوں کی جھیل روشن ہے
جل رہے ہیں چراغ گالوں میں
جب میں گھر سے چلا تھا دفتر کو
صبح روتی تھیں شاخ پر کلیاں
پھول ہنستے ہیں اس کے بالوں میں !
٭٭٭



غزل
اپنا شہکار ابھی اے مرے بت گر نہ بنا
دل دھڑکتا ہے مرا ، تو مجھے پتھر نہ بنا

آتی جاتی ہوئی سانسوں پہ لکیریں مت کھینچ
میری تصویر مجھے پاس بٹھا کر نہ بنا

قید آوارگیِ جاں ہی بہت ہے مجھ کو
ایک دیوار مری روح کے اندر نہ بنا

وہ گھروندے ترے بچپن میں بھی ڈھا دیتی تھی
اب تو وہ کھیل کی باتیں بھی نہیں ، گھر نہ بنا

اک ترا دھیان جو ٹوٹا تو بکھر جاؤں گا
مجھ کو اک لہر پہ بہنے دے سمندر نہ بنا
٭٭٭


غزل

اپنی بانہوں میں سسک کر مجھے مر جانے دے
میرے دل پر ہے بہت بوجھ، اتر جانے دے

وقت کی راہ میں اب یاد کی دیوار نہ بن
راستہ چھوڑ دے لمحوں کو گذر جانے دے

اشک آنکھوں میں امڈ آئے تو منہ پھیر لیا
اب میں جاؤں گی، وہ کہتے ہے اگر، جانے دے

آگیا میں کسی تتلی کے تعاقب میں کہاں
مجھ کو ماضی کی صدا بن کے بکھر جانے دے

آخری گھونٹ ترے زہر کا یہ بھی پی لوں
اپنی الفت سے مجھے آج مکر جانے دے

٭٭٭



تخلیق
کبھی سادہ کاغذ پہ کچھ آڑی ترچھی لکیریں سی کھینچی ہیں
اور سوچتا رہ گیا ہوں
مری طرح میرے خدا نے بھی شاید
یوں ہی آڑی ترچھی لکیریں سی کھینچیں
پھر ان سے الجھ کر
الٹ دی دوات
ایک محور بنے سارے نقطے … لکیریں ، مدار
جا بہ جا، نور کی روشنائی کے چھوٹے بڑے ، دور و نزدیک دھبے
چاند، سورج، ستارے، زمیں
کائنات …
اور ہم جانتے تھے
ابھی خشک ہو جائے گی روشنائی
آتے لمحے کی بس دیر ہے
اسی واسطے ہم نے موجود لمحے کو صدیوں میں بانٹا
لاکھوں کروڑوں برس میں
مگر اس طرح آتے لمحے سے موجود لمحے کا یہ فاصلہ
بڑھ سکا …؟!!
٭٭٭


توہم



میری سونی آنکھوں میں
عکس ماہ و سال نہ ڈھونڈو
پہلی بار میں جب رویا تھا
دھرتی کا دامن گیلا تھا
اب یہ دامن سوکھا ہے
اور یہ چہرہ جھوٹا ہے
اس چہرے میں
میرے خد و خال نہ ڈھونڈو
میرے ساتھ چلو
آئینے کی گرد ہٹا کر دیکھیں

کوئی نہیں ہے …!
٭٭٭


غزل

صدا زِ فیضِ اثر خامشی نہ بن جائے
جو بات کہہ نہ سکوں ، آپ ہی نہ بن جائے

کس انتظار میں ہے گھر کا بند دروازہ
صدا بھی سایۂ زنجیر ہی نہ بن جائے

وہ گھٹ کے مر ہی نہ جائے جو میرے اندر ہے
مرا وجد ہی میری نفی نہ بن جائے

تری وفا مری نس نس میں زہر بھر دے گی
یہ دوستی بھی تری دشمنی نہ بن جائے

اٹھاؤں نظم کا گھونگھٹ تو سامنے تم ہو
غزل کہوں تو تمہاری چھبی نہ بن جائے
٭٭٭



غزل


وہ تجھے دیکھ کر حیران نہ ہو جائے کہیں
ایک لڑکی ہے ، پشیمان نہ ہو جائے کہیں

ہنستے ہنستے کوئی پاگل سا ہوا جاتا ہے
روتے روتے کوئی ہلکان نہ ہو جائے کہیں

توڑ کر جسم کی دیوار نکل جانے دے
مجھ کو یہ قید بھی آسان نہ ہو جائے کہیں

اپنی آنکھوں میں چھپا لے ترا آنسو ہوں میں
میری ہستی، تری پہچان نہ ہو جائے کہیں

ایک محور پہ زمیں گھوم رہی ہے کب سے
زندگیِ ایک ترا دھیان نہ ہو جائے کہیں
٭٭٭


مراجعت

میں اپنے جسم کے باہر کھڑا ہوں
ان آنکھوں کے دریچوں سے تو اب
بسیں ، سڑکیں
ملوں کی چمنیاں
میونسپلٹی کا نل، کوڑھی بھکاری
دھنی مل کا بہت اونچا مکاں
کچھ بھی نظر آتا نہیں
اب ان آنکھوں میں میری
ہزاروں انجنوں کا شور ہے … کالا دھواں ہے
مگر دل کو لبھاتا ہے ابھی تک
نیلگوں دوری کا منظر
چاند، تارے، آسماں
دیکھنے کی خواہشیں جاگتی ہیں
مشینی ہات مجھ کو ڈھونڈتے ہیں
میں اپنے جسم کے باہر کھڑا ہوں !
٭٭٭



گیان کے جنگل میں

مجھے وقت چند قطروں میں حل کر کے
میرے لو سے
ایک اک پل نچوڑا گیا ہے
یاد ماضی
بہانے ہیں سب مجھ کو مصروف رکھنے کے … میں جانتا ہوں
اگر یہ بہانے نہیں
تو وہ لمحہ میں گاڑی میں بیٹھا تھا جب
وہ ڈبے کے باہر کھڑی رو رہی تھی
زمیں اس کو پیچھے بھگائے لئے جا رہی تھی
زمیں گھومتی ہے
مریخ، زہرہ، عطارد سبھی گھومتے ہیں
جو نہیں گھومتے، وہ بھی سب دیکھتے ہیں
وہ لمحہ جو بیتا … مگر
کہو تم نے دیکھا … کہو تم نے … تم نے
نہیں ؟
میں جانتا ہوں
اگلا اسٹیشن آنے سے پہلے
اندھیرے کے زینے سے
چپ چاپ باہر نکل جاؤں گا!!
٭٭٭


کلب میں …


وہ جب آئے گی
دن کی گرد
آنکھوں کی تھکن
رخسار کی زردی چھپائے گی

وہ چہرہ تھام لوں گا میں
مگر غازہ کی ہلکی تہہ نہ دیکھوں گا

مسرت رات بھر کی روشنی ہے
(مسرت گیت گائے گی)
کلب کے ہال سے اس نیم روشن کنج میں لے جاؤں گا اس کو
حسیں کانوں کی لو میں جھلملاتے سرخ آویزوں کے جھوٹے نگ
مرے لب چوم لیں گے
مری سرگوشیوں کے سائے سائے
کئی جگنو اڑیں گے
مجھے معلوم ہے اندھے دلوں کی گرد کے پیچھے
مجھے معلوم ہے راتوں کے کالے کرب کے نیچے
حسیں آنکھوں کے زنداں ہیں
کئی جگنو بھٹکتے ہیں
مسرت رات بھر کی روشنی ہے !

٭٭٭



غزل

الفاظ پرے شورش ِ اظہار سے اب تک
معنی ہیں مگر صورتِ اغیار سے اب تک

تنہائی میں رکھ دیتا ہے کاندھے پہ کوئی ہات
کچھ غم ہیں جو ملتے ہیں اسی پیار سے اب تک

نکلے تھے مگر اپنا پتہ بھول گئے ہیں
لوٹے نہیں ہم کوچۂ دلدار سے اب تک

سو جائے گا، پلکوں میں چھپا لے، ترا مصحفؔ
بیٹھا ہے لگا آنکھ کی دیوار سے اب تک
٭٭٭


نئی صبحراستے ڈگمگانے لگے
سیہ شب نے آواز دی
’’مجھے تھام لے‘‘

میرے ہونٹوں پہ اک مسکراہٹ سی ابھری
میں نے کہا ’’اب مجھے تو نہ الزام دے‘‘
گلیشیر کی بند آنکھوں سے لاوا بہا
خدا … برف کا
رو پڑا

خوشبوئیں جاگ اٹھیں
نرم کلیوں کے سینے سے کرنوں کا آنچل ڈھلکنے لگا
میں ہنسا
مرے ساتھ پھیلی زمیں کے نظارے ہنسے
میرے گاؤں کا پنگھٹ
ندی کے کنارے ہنسے !
٭٭٭




غزلآتی جاتی سانس کیسے تیرے غم سے من گئی
کیا بتائیں زندگی خود رفتگی کیوں بن گئی

بات بھی سہہ لیں کسی کی اب کہاں اتنا دماغ
تجھ سے کیا روٹھے لڑائی دوسروں سے ٹھن گئی

کاغذوں سے میں ترا عریاں بدن ڈھکنے لگا
جو بچا رکھی تھی اب تک وہ متاعِ فن گئی

ریزہ ریزہ چاند پلکوں کی چٹانوں پر ملا
رات کالے غم کی ایسے جھاڑ کر دامن گئی

روز و شب کی یہ مسافت جانے کب ہو گی تمام
پھر ہوا لے کر ہمارے جسم کا ایندھن گئی
٭٭٭


مخدومؔ کی یاد میںاشک پلکوں سے ڈھلکتے ہوئے رخسار تک آ جاتے ہیں
جذب ہو جاتے ہیں
دور تک پھیلی ہوئی مٹی میں …

اسی مٹی سے تو اگتے ہیں گلاب
اور سورج کی شعاعیں
منعکس ہوتی ہیں جب خاک کے نم ذروں سے
دور … تاریک خلاؤں سے کوئی دیکھے، زمیں
نور کا دائرہ بن جاتی ہے

میرے شاعر! مرا سرمایہ یہی آنسو ہیں
اور تو کچھ بھی نہیں جو میں تری نذر کروں
یہی کچھ پھول لیے آیا ہوں
اک دیا تیرے سرہانے رکھ دوں !
٭٭٭



خوف

خوف سے میرے لب آسماں کی طرح نیلے
آنکھٰن …
پربت کی مانند
بے جان ہیں
یہ کیلنڈر …
اس کو چھپا دو کہیں
اس گھڑی کو کہیں دفن کر دو
یہ ٹک … ٹک
مرے کان میں ریل کی چیخ بننے لگی ہے
میری سانسوں سے کالا دھواں سا نکلتا ہے … میں
کہاں جا رہا ہوں
یہ سورج کہ انجن میں دہکے ہوئے کوئلے ہیں
سیارے
پہیوں کے مانند لڑھکے چلے جا رہے ہیں
کہاں ؟
… وقت …
ریل کی پٹریوں سے پھسل کر
نیچے گرنے کو ہے!
٭٭٭



  
سفید پوش

وہ آ رہا ہے

وہ اقلیدسی شکل اس کی، مثل نما ہونٹ
لہجے کی مخصوص گمبھیرتا
وہی جانے پہچانے، مانوس فقرے
ابھی میرے شانے پہ وہ ہاتھ رکھ کر کہے گا
’’بھئی اتنے دن سے کہا تھے
کہیں بیٹھ کر آؤ کچھ دیر باتیں کریں
پئیں !
کوالٹی بار، پرسز
چلیں ‘‘

مداری!
پٹارے میں کیا ہے
وہی بین ، سانپ اور کوئی تماشہ …؟‘‘
٭٭٭



تصویریں


موت کے لمحے نے
دستک دی
میں نے دل کی دہلیز کے باہر
پاؤں رکھا
رات نے میرے پیچھے
آہستہ سے
دروازہ بند کیا

صبح نے، آئینے پر
میری لاش کے ٹکڑے جوڑے
افواہوں کی مانند
مجھے
گھر، دفتر ملنے جلنے والوں میں گشت کرایا
فٹ پاتھوں پر
میرے چلنے، پھرنے، ہنسنے، باتیں کرنے کی
مووی تصویریں دکھلائیں !!
٭٭٭




۱۹۷۰ء
کے بعد



نوحہ
(مخدومؔ اور جامیؔ کی یاد میں )


یہ گردش ، روز و شب کس کو
راس آئی ہے راس آئے گی
وہ خوش بو ہو یا کوئی کرن
پاس آئے گی کھو جائے گی
اک دیپ، اک آنسو، کچھ یادیں
سب شاخ سے ٹوٹے پتے ہیں
کچھ اور ہوا گر تیز چلی
یہ سورج، چاند اور سیارے
سب شمعیں گل ہو جائیں گی

یہ شہر مرا …
جو نور کا مامن تھا کل تک
اس کا تو بھلا پھر ذکر ہی کیا!
٭٭٭



کینچلی


مرے نام سے
مرے خال و خد
گفتگو، جسم کی ساخت،
طرزِ عمل،
گذشتہ حکایات سے
مجھے یاد رکھنے کی کوشش نہ کرنا

مرے ساتھ بھی
سخت دھوکہ ہوا ہے !
٭٭٭


غزل

کاٹی ہے کیسے صبح کہاں شام، بھول جائیں
ٹھہریں کہیں یہ گردش بے نام بھول جائیں

پلکوں پہ آ سجالیں سبھی خار پاؤں کے
کیوں چلتے چلتے ہونے لگی شام بھول جائیں

بہتی ہواؤں پر نئے نوحے لکھا کریں
اس گھومتی زمین کا انجام بھول جائیں

کھل جائیں پانیوں میں جزیروں کی کھڑکیاں
تجھ سے ملیں تو روح کا کہرام بھول جائیں

یہ بھی نہ کر سکے کہ کوئی شغل ڈھونڈ لیں
اتنا نہ ہو سکا کہ تیرا نام بھول جائیں
٭٭٭




انتظار


وہ بوڑھا … ندی کے کنارے
یہی سوچتا تھا
’’وہ کب آئے گی … وہ کب آئے گی
یہی سوچتے سوچتے شام ہو جائے گی‘‘
اسی دھیان میں رات ڈھلنے لگی
اسی فکر کا شور سورج کی تولار سے کٹ کے شبنم کا قطر بنا

بوڑھے گالوں پہ ٹھہرا نہیں
ندی گنگنانے لگی
’’وہ آنے لگی‘‘


دوسرے لمحے
سرد، گہری، انوکھی سیہ، چپ
مرے جسم کو یخ زدہ کر گئی
خوف سے میری آنکھیں کھلی رہ گئیں
وہ بوڑھا
… ابھی تو یہیں تھا ؟ !
٭٭٭


آبادی سے دور، سمندر کے کنارے ایک شام


نہیں …
یہاں صرف ہم ہی نہیں
کوئی اور بھی ہے

کوئی اور بھی ہے …
جس کی بے چہرگی
متحرک …
ریت کے اونچے تودوں
مچھیروں کی کشتی کے پیچھے
ناریل کے درختوں کی لمبی قطاروں میں
خود کو چھپاتی ہوں پھر رہی ہے

سمندر کے چہرے پہ کتنی نقابیں ہیں
کتنی لہریں ؟
کہاں جاتی ہیں
نہیں اپنی نظروں سے کہہ دو
سمندروں کی لہروں کا پیچھا نہیں کرتے
ان جزیروں کی خواہش بھی بے سود ہے
جن میں اب کوئی رہتا نہیں

اتنا سوچا نہیں کرتے
آؤ اپنے پڑاؤ کو لوٹیں
شام کی ڈاک میں
شائد اس کا کوئی خط ہو
ممکن ہے
کل کا اخبار بھی ہو …!!

٭٭٭



میں اور تو




کبھی صحرا میں بھٹکتا ہوں
کبھی
اک بہت اونچی عمارت کے کسی گوشے میں
ایک کھڑکی کی رف رخ کرے
خرد بیں میں کسی پتھر کی سلائیڈ کے تلے
دبتا جاتا ہوں
پچھلے اتوار کی یاد آتی ہے
مسکراتا ہوں رمی میں
میں نے
جو پینتیس روپے جیتے ہیں
اے خداوند!
یہ عبادت ہے مری
کتنی مقبول!
یہ کرم تیرا کہ تو نے مجھے جنت دے دی
سر چھپانے کو جہاں
چھت ہے
دو روٹیاں مل جاتی ہیں !!
٭٭٭


مسیح کی ولادت سے پہلے


کتنی صدیاں گزریں
نیل کیو ادی میں اک تہذیب پھلی پھولی
لوگوں نے تصویروں کے سہارے
لکھنے کا فن
اعشاری پیمانے ایجاد کئے
ایک برس کو
تین سو پینسٹھ دن میں بانٹا
ان لوگوں کے احساس ہیں
ہم پر،
پچھلی،
آنے والی نسلیں ، تہذیبیں
اک زنجیر کی کڑیاں ہیں
سب کے کاندھوں پر ہیں
صلیبیں
ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہیں !
٭٭٭


ادھیڑ عمر

مری التجا مان لو
کسی طرح ان آتے لمحوں کو گن لو
جن کے آگے
نہ کوئی اجالا، اندھیرا
نہ وہ لوگ ہیں
جو مجھے بھول کر خوش رہے
نہ کوئی زمیں … جو مرے غم سے نا آنشا
اپنے محور پہ
سورج کے اطراف چکر لگاتی رہی
زرد پھولوں کے
پامال پتوں کے اس ڈھیر کو روند کر کہاں جاؤ گے
آؤ
اس پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ کر
ایک سگریٹ پئیں
سبز، خودرو ہوا
وحشیوں کی طرح
میرے چاروں طرف ناچتی ہ ے
شام …
زخموں کے بستر پر لیٹی ہوئی
جاگتی ہے!!
٭٭٭


غزل

کچھ گم سا اپنی ذات میں کچھ خود نما لگا
تم کو وہ بت لگا ہو، مجھے تو خدا لگا

میں بھی تھا دل گرفتہ سا، وہ بھی بہت حزیں
میں اک قدم بڑھا کہ وہ سینے سے آ لگا

میں کب سے اپنے چاہنے والوں میں قید ہوں
سب کی زباں کو میرے لہو کا مزہ لگا

’’سازش میں میرے قتل کی تم بھی شریک ہو‘‘
اک تیر میں نے چھوڑا نشانے پہ جا لگا

یوں تو ہزار طرح سے مجھ پر نثار تھا
آنکھوں میں اس کی جھانکا تو کیوں بے وفا لگا

مجھ کو تو وہ زمیں پہ دکھائی نہیں دیا
تم کو کہیں خلاؤں میں اس کا پتہ لگا

کیا کیا نہ ات میں کوئی نرمی نہ کچھ مٹھاس
وہ سچ ہی بولتا رہا مجھ کو برا لگا

بستر پہ اپنے میں ہی لیٹا تھا رات کو
آئینہ صبح دیکھا، کوئی دوسرا لگا

پتھر کی طرح گنگ تھا مصحفؔ سے ہم ملے
اشعار میں وہ اپنے مگر بولتا لگا
٭٭٭


کچے رنگ کی دیواریں


میں کے سینو، کے نیم تاریک گوشے میں بیٹھا تھا
’’چینی‘‘ نہیں
وہ کچھ دیر بیٹھی مجھے یوں ہی تکتی رہی
کہنیاں میز پر رکھ کے بولی
نئے شاعروں میں تم مرے فیورٹ ہو
مجھے اس ادا پر ہنسی آ گئی
میں نے کہا ’’تمہیں کچھ روپوں کی ضرورت ہے …
ہے نا؟
مجھے خوف آتا ہے … اک دن
مری جیب میں چند سکے نہ ہوں گے
وہ اک اچھی لڑکی ہے
اپنے خوابوں کو البم میں کتنے سلیقے سے رکھتی ہے
مجھے خوف آتا ہے
وہ اک بوڑھی ماں اور نینا کی خاطر
یہ البم بھی تج دے گی اک دن
مجھے خوف آتا ہے
اس کارخانے کے مالک سے
اس کی یوفوم کی توند سے
سخت نفرت ہے مجھ کو!
٭٭٭


نیند کی گولیاں


یہ سچ بھی آج اگر مان لیں تو اچھا ہے
کہ اس ہجوم میں تنہا رہے بہت ہم تم
تمہارا جسم، مری آرزوئیں … سب بے نام
اب اس سے پہلے ہم ایک بار پھر بچھڑ جائیں
جو لمحہ دن کے خزانے میں چرا لایا
اسے گنواؤ نہیں آؤ چوم لوں میں یہ لب
پھر اپنی ذات کے ٹکڑے مجھی کو چننا ہیں
زمیں کا کوئی بھروسہ نہیں رہا … لیکن
تم آئے اب تو بہت رات ڈھل چکی ہو گی
میں خواب گاہ کا دروازہ بند رکھتا ہوں
نئی جگہ ہے اگر نیند کی شکایت ہو
ڈرائنگ روم کی دیوار میں
جو شلف نصب ہے
کچھ خوب اس میں رکھے ہیں !!
٭٭٭


خطِ مستقیم


کوئی لمحہ
میرے کاندھے پہ جب ہات رکھے گا
میں اپنے غم کی حکایت کہوں گا نہیں
کچھ سنو گا
منہ پھر کر
بس اتنا کہوں گا
تم تو
میرے پاؤں کی زنجیر کی اک کڑی ہو
ایسا نقطہ ہو جو مکمل کے بنتے ہیں ، وہ …
خط مستقیم جو کشش ثقل کی زمیں کا مدار
اور اس کے محور کو بھی کاٹتا
اندھی خلاؤں میں سب کچھ گرا دے گا اک دن
تم
کسے دوست کہتے ہوں ؟‘‘
٭٭٭



خوابوں کے لئے دو گز زمین کی تلاش

شب کے مسافر
اپنے خوابوں کو گن لو
شہر کے بازاروں میں
ہر سودا ہو جاتا ہے
یہ بھی ممکن ہے دوکانوں پر
ایسے لوگوں کا انبوہ ہو جن کی راتوں کو نیند نہیں آتی ہے
خواب … تمہارے
اچھے داموں بک جائیں
ورنہ ان خوابوں کو
فٹ پاتھوں پر لیٹے
ننگے اندھے فقیروں کی جھولی میں
چپکے سے
رکھ دینا
شب کے گزرنے سے پہلے ہی
ان خوابوں کے بکھرنے سے پہلے ہی
لوٹ آنا
اور اس شہر کا، دوبارہ
رخ مت کرنا!
٭٭٭


غزل


دوریوں کے مٹتے دھبوں پر ستارے ٹانک دے
آسماں کی میلی چادر سے اب آنسو پونچھ لے

آگ برسائے گا پھر، سوئے ہوئے غم کو نہ چھیڑ
پاس مت آنے دے ا سکو دور ہی سے دیکھ لے

ایک آنسو میں سمندر تھے، کئی طوفان بھی
لہر وہ سب سے الگ تھی جس پہ ہم بہتے رہے

کل مگر پوچھے گا تجھ سے تیرا فن ہی، ہم تو کیا
ایک مٹی کے کھلونے کی طرح ٹوٹے ہوئے

پہلے اک ہلکی سی جنبش پاؤں کے نیچے ہوئی
پھر دعا کو اس زمیں کے دونوں ہات اٹھنے لگے

میرے اس سچ بولنے سے وہ بھی عاجز آگیا
آپ جب آتے ہیں افسانے سناتے ہیں نئے

ایک چوراہے پہ سورج، چاند سیاروں کا رقص
ہم بھی اپنے گھر سے نکلے، پمی ڈبو کو لیے

آ، ادھر آنان حنائی انگلیوں کو چوم لوں
ان سے پوچھوں ، آپ نے کیوں اتنے پیارے خط لکھے
٭٭٭


نیند ٹوٹنے پر


ابھی میری پلکوں سے جو
ایک آنسو سا ٹپکا تھا
کیا تھا؟
کسی کا لے بچھو کے ہاتھوں میں یہ جسم
زرد سیال سے مادے کی طرح
ایک دوزخ کا ایندھن بنے؟
یا ڈنک سے زہر کا ایک نقطہ
فضا میں
پھیلتا … پھیلتا جائے
مرا جسم نیلا ہے … میں نے ابھی اپنی ماں سے
ایک میٹھی سی لوری سنی تھی
چاند کو دیکھتے دیکھتے اک ستارے پہ انگلی رکھی تھی
وہ اک خواب سا …
مرا پالنا جو ہلاتا تھا
کیا تھا؟ !
٭٭٭

یہ جھوٹ ہے


مجھے یہ علم تھا
کہ جھوٹ بولتی ہے وہ
’’میں ایک پل بھی آپ کے بغیر جی نہیں سکوں گی‘‘
جھوٹ ہے
یہ زندگی عجیب خواہشوں کا نام ہے
میں اس کے جسم کے حسیں طلسم میں اسیر تھا
میں نے اس کی خواب گاہ سے نکل کے آئینے پہ جب نگاہ کی
میری آدھی عمر کٹ چکی تھی
میں رو پڑا
’’یہ جھوٹ ہے … یہ جھوٹ ہے‘‘!
٭٭٭


دوریاں


ایک تل
اس کی گردن کے نیچے
بائیں جانب
مرے سر پہ اک مہرباں ہات
مری بوڑھی ماں کا
بابا کی کھانسی کی مانوس آواز
وقفے وقفے سے آتی ہوئی
ایک سگریٹ سلگتا ہوا
مری انگلیوں میں
چند پیکر
(راکھ کی طرح)
ٹوٹی ہوئی
سیہ، ایش ٹرے میں !!
٭٭٭


دائرے

اپنے بیٹے جاویدؔ کی سالگرہ پر))

کوئی اس مصور کو لائے
جو میرے ساری خوشیاں
اپنے برش پر اٹھا لے
ننھے جاویؔ کی تصویر کے گرد
نیلی کرنوں کی کشتی کو کھیتے ہوئے بادلوں
شفق، چاند، اڑتی ہوئی تتلیوں
مختلف رنگ کی مچھلیوں کے
کئی دائرے کھینچ دے
مرے جسم ، چہرے پہ تھوڑی کے نیچے
جھریوں کو ابھارے
مرے جسم و جاں کے گھنے، سبز خاموش جنگل میں
شعلے اگا دے
مجھے ایک بے برگ، تنہا شجر میں بدل دے !!
٭٭٭


ولیم ولسن
(ایڈگر ایلن پو کی کہانی کا ایک کردار)


کیا خبر … اس نے سنی
کچھ تو زنجیر میں جھنکار ہوئی
ورنہ وہ گہری سیہ خاموشی
میں نے کہا ’’تم … پھر … تہ …‘‘
ادراک بجلی کا کوندا مری آواز سے پہلے لپکا
جانے وہ کون سا لمحہ تھا کہ حرف
کوہ کو زیرِ زمیں کاٹ گئے
میرے قدموں تلے لاوا تھا، چٹانیں سر پہر
میرا ہم شکل، وہ دانا …
کاغذی اس کا بدن، ناک ذرا پچکی ہوئی
خوں سے سرخ ایک پہاڑی ندی
جو اسے لے کر نشیبوں کی طرف جاتی تھی
اور وہ چیخ
رات بھر
آسمانوں پہ جو منڈلاتی تھی!
٭٭٭


ایک صبح


اذاں کی صدا میرے کانوں میں آتی تھی
وہ پاس ہی
اونی چادر میں لپٹی ہوئی سو رہی تھی
میں نے اپنی نگاہیں جھکا لیں
گناہوں نے کپڑے پہن کر کہا
آؤ کروٹ بدل کر
پھر سے سونے کی کوشش کریں !!
٭٭٭


غزل


کوئی خوشی نہ کوئی غم رہا آنکھوں میں
کچھ اب کے اور ہی عالم رہا ہے آنکھوں میں

سرہانے چھوڑ گیا ہے ادھوری تعبیریں
وہ ایک خواب جو برہم رہا ہے آنکھوں میں

تمام عالم امکاں ، اک آئینہ خانہ
یہ کس کا دیدۂ پرنم رہا ہے آنکھوں میں

یہ کس خیال نے دھندلا دیئے سب آئینے
خوشی کا رنگ بھی مدھم رہا ہے آنکھوں میں

ادھر سے دن میں گزرتے ہوئے بھی خوف آئے
عجیب ہو کا عالم رہا ہے آنکھوں میں

کن آبگینوں میں اترا ہے عکس ماہِ دو نیم
یہ کس کا ابروئے پر خم رہا ہے آنکھوں میں

وہ آرزو کہ جسے کوئی نام دے نہ سکوں
وہ ایک نقش کہ مبہم رہا ہے آنکھوں میں
٭٭٭


غزل


جزیرے ہات ہلاتے رہے گزرتے ہوئے
قدم رکھا نئے ساحل پہ میں نے ڈرتے ہوئے

فلک پہ چاند، ستارے، زمیں پہ پھول، چراغ
وہ میرا ہو گیا سب کو گواہ کرتے ہوئے

جو لمحے ساتھ گزارے نہ ان کی چیخ سنی
نہ اس نے دیکھا میرے جسم کو بکھرتے ہوئے

نہ کوئی سمجھے گا تیری وفا کا یہ انداز
نہ مجھ کو دیکھے گا اب تجھ سے بات کرتے ہوئے

نہ جانے کیوں مجھے اپنی زمیں کی یاد آئی
اک آنسو پونچھ لیا چاند پر اترتے ہوئے

٭٭٭


غزل


بے چہرہ آرزو تھی، خوشی بے لباس تھی
شاید وہی گھڑی مرے غم کی اساس تھی

میرے بدن پہ ہو گی ہزاروں برس کی گرد
آنکھوں ہی میں چھپی ہوئی صدیوں کی پیاس تھی

وہ کاغذی سہی، مگر اچھے لگے مجھے
ہر چند ان گلوں میں نہ بو تھی نہ باس تھی

کیا بات تھی نہ جانے جو دل ہی میں رہ گئی
کیوں ان دنوں بہت ترے ملنے کی آس تھی

وہ آنکھیں کہہ رہی تھیں ہمیں چوم لے کوئی
وہ میرے پاس آئی تو کتنی اداس تھی

٭٭٭


سائے کی آنکھ

صبح … بستر پہ ہی لیٹے لیٹے
پہلے سگریٹ کی ڈبیا ڈھونڈی
چائے منہ دھونے سے پہلے پی لی
وہی دفتر کی سڑک، پان کی دوکان، بس اسٹینڈ
ایک مجبور اپاہج عورت
ہاتھ میں کاسۂ تقدیر لیے بس کے آنے میں ابھی دیر تھی، … اپنے خدو خال
یاد آتے نہ تھے … میں نے سوچا
جانے پہچانے ہوئے چہروں کے اس منظر کا
میرا چہرہ بھی اک حصہ ہو گا
شام آئی تو، کلائی اس کی
بورھی … پیچھے ہٹی
چوڑیاں جگ گئیں
چائے کی تیز مہک میں ، مرا
سایہ تحلیل ہوا
سائے کی آنکھ … مگر
چائے کی سطح پہ ابھری تو بہت دیر تلک
مجھے تکتی رہی …
سائے کی آنکھ میں ، میں نے دیکھے
ان گنت دائرے، اک دائرے مں
ناک بہتی ہوئی اپنی …
وہی مفلوج، اپاہج عورت
مجھے سینے سے لگائے ہوئے
دوسرے دائرے میں
میری بغل میں بیٹھے
اک مسافر کو اسی پیار سے لپٹائے ہوئے
تیسرے دائرے میں …
ان گنت دائرے
سائے کی آنکھ میں ، میں نے دیکھے!
٭٭٭



شہر میں منہ دکھانے کی خواہش


کل تم نے بازار میں مجھ کو ننگا کیا
مری جوتیاں میرے سر پر سجا کر
کچھ جاہلوں کو لئے
رقص کرتے رہے
یہی کام اگر تم سلیقے سے کرتے
کہیں شہر سے دور جاتے
یا اپنے بڈ روم میں
چند یاروں کی محفل سجاتے
(تمہاری تو بیوی بھی میکے میں تھی)
بھانگڑہ ناچتے
میں تو عریاں تھا روز ازل بھی
مرا سر … مری جوتیاں
بوجھ ہی تھے زمیں کا
ان کی ترتیب کے اس الٹ پھر پر
مجھ کو ہنسنے کا بھی حوصلہ تھا
عجب سر پھرے ہو
خود بھی رسوا ہوئے
مجھے بھی
شہر میں منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑا!!
٭٭٭



ستیہ سائی بابا

صدیوں کی راکھ
تری مٹھی میں
دھرتی کے ہر دکھ کا بوجھ
تیرے کاندھوں پر
ترا من اک اچل گہرا پریم کا ساگر
تیری بانہیں
ساگر کے کنارے
چاند، ستارے
ایک دشا کے مارے
گھوم گھوم کر تجھ کو دیکھیں
آپس میں جب بولیں ، پوچھیں ’’اس دھرتی پر
کون آیا ، رے ؟ …‘‘
’’کون ہے؟ جو سورج کی آگ کے شعلوں میں
ہاتھ بڑھا کر
ہات جلا کر
سکھ کی ننھی ننھی پھلجڑیاں
لوگوں میں
بانٹ رہا ہے‘‘ !
٭٭٭



بھنور

مجھے خوف کیسا، لگا رہا
کہیں اپنا راز نہ کھول دوں
مجھے آرزو بھی بہت رہی
کہ ندی میں یوں تری ذات کی
کبھی اپنی دید کی خستگی
جو مثیل مہر ہے، گھول دوں
یہ جو نور تیرے جمال کا مری روح میں نہ سما سکا
بہے لہر لہر کے تھال پر
کئی اشک ہوں مرے گا پر
اسی روشنی میں چمک اٹھیں
کئی دارے مرے خواب کے
وہ بھنور سے چشم پر آب کے !
٭٭٭


غزل


کانچ کے گھر میں اک مچھلی کا رنگ مرے خوابوں جیسا
کن لہروں پر بہتا تھا میں ، کس ساحل پر قید ہوا

میں نے دیکھا ان آنکھوں میں بادل تیرتے رہتے تھے
میں نے جانا اس نے بھی پڑھ لی ہے ہاتوں کی ریکھا

اک ذرے کو الٹا پلٹا، اس میں شہر تھے ، صحرا بھی
اک لمحے کی جیب ٹٹولی، سرمایہ تھا صدیوں کا

سچی بات ہے جینے کا فن کوئی تجھ سے جا کر سیکھے
اس دن دل ہی بھر آیا تھا، ورنہ تجھ سے شکوہ کیا

یہ آنسو بی پی لوں گا میں ان پلکوں کو چوم تو لوں
اب مجھ کو اپنا کہتی ہو، میں پہلے بھی غیر نہیں تھا
٭٭٭


غزل

کیا اس کی خبر اپنا پتہ مجھ کو ملے گا
روٹھا رہے اک دن تو خدا مجھ کو ملے گا

آئینے میں وہ قید ہے، جاؤں اسے ڈھونڈوں
پتھر پہ نشان ِ کف ِ پا مجھ کو ملے گا

اے وقت ! ذرا دائرے کی شکل بنانا
اک موڑ پہ وہ اب بھی کھڑا مجھ کو ملے گا

اے کا ش تری ذات ہی ہوتی مری دنیا
اب تیری وفاؤں سے بھی کیا مجھ کو ملے گا

آنکھوں کی تھکن ڈھونڈ ہی لے گی کوئی صحرا
کچھ دیر کو منظر تو نیا مجھ کو ملے گا
٭٭٭



غزل

خواہشوں کی تیز رفتاروں کے بیچ
میں کھڑا تھا بھاگتی کاروں کے بیچ

وہم اَبعاد ثلاثہ، اور میں
قید ہوں ان چار دیوروں کے بیچ

موم کا بت رات بھر روتا رہا
راکھ کے پہلو میں انگاروں کے بیچ

خواب اک صحرا کا آنکھوں میں لئے
جگمگاتے شہر بازاروں کے بیچے

دور تک میرے لہو کی ایک لکیر
طائروں کی ڈولتی ڈاروں کے بیچ

آسماں کی طرح سر پر ماں کا ہات
میرے آنسو چاند اور تاروں کے بیچ

کچھ رمی کھیلیں ، پھر اس کے خط پڑھیں
کاٹ دیں یہ رات غم خوروں کے بیچ
٭٭٭


 غزل


خشک پتوں پہ اپنا نام لکھیں
بین کرتی ہوا کے ساتھ چلیں

جس سے لی تھی اسی کو لوٹا دیں
یہ رہیں صبحیں ، پہ تری شامیں

غم کو لے جائیں اک پہاڑ پہ آج
اور اس بے حیا کو دھکا دیں

دیکھیں کیا کر رہی ہے تنہائی
آج اپنے ہی گھر پہ دست دیں

کیا بھروسہ زمیں کی گردش کا
شام ہو جائے اور نہ ہم لوٹیں

دل میں جلتا ہے اک چراغ جلے
اب اگر تیرا نام بھی ہم لیں
٭٭٭